تلوار کا زخم بھر جاتا ہے مگر زبان سے لگایا ہوا زخم کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ الفاظ زبان سے نکلنے سے پہلے انسان کے تابع ہوتے ہیں مگر جب الفاظ زبان سے نکل جاتے ہیں تو انسان اپنے ہی الفاظ کا تابع ہوجاتا ہے ،اس زبان سے نکلے ہوئے ایک نازیبا لفظ اور ایک جملے سے ہماری زندگی الجھنوں کا شکار ہوجاتی ہے اور بندہ جیتے جی زندہ لاش بن جاتا ہے ۔ انسانی فطرت ہے کہ جو چیز اس کے نزدیک قیمتی ہوتی ہے اسے وہ بڑی حفاظت سے رکھتا اور احتیاط سے استعمال کرتا ہے اسے سوچ سمجھ کر استعمال کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے، اللہ تعالیٰ نے زبان کی تخلیق میں انسانی فطرت کو ملحوظ خاطر رکھا، اسے بتیس دانتوں کے حصار اور دو ہونٹوں کے اندر حفاظت سے رکھ دیا اور یہ درس دیا کہ ترجمہ: ’’اے محبوب:۔ میرے بندوں کو فرمادیجئے کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہتر ہو‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل)
اسی طرح خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بندہ جب تک اپنی زبان کی حفاظت نہ کرلے ایمان کی حقیقت کو حاصل نہیں کرسکتا‘‘ (رواہ طبرانی)
حضور ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے ارشاد فرمایا :۔ جب صبح ہوتی ہے تو بدن کے سارے اعضاء زبان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ خدارا ہمارے معاملے میں اللہ سے ڈرنا اس لئے کہ ہم تجھ سے وابستہ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ (رواہ الترمذی)
ایک مرتبہ فرمایا ’’لوگوں کو ناک کے بل دوزخ میں گرانے والی ان کی زبان ہی کی بری باتیں ہوں گی‘‘ (رواہ الطبرانی)
صرف ایک کلمہ باعث رفع درجات
اور باعث دخول نار ہوجاتا ہے
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ بندہ کبھی اللہ کی رضا مندی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ دیتا ہے کہ جس کی طرف اسے دھیان بھی نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے بہت سے درجات بلند فرمادیتا ہے اور بلاشبہ بندہ کبھی اللہ کی نافرمانی کا ایسا کوئی کلمہ کہہ گزرتا ہے کہ اس کی طرف اس کو دھیان بھی نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے دوزخ میں گرتا چلا جاتا ہے۔
انسان اپنے قدم سے اتنا نہیں پھسلتا جتنا اپنی زبان سے پھسلتا ہے۔
امام بیہقی نے شعب الایمان میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ بندہ کوئی کلمہ کہہ دیتا ہے اور صرف اس لئے کہتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کلمہ کی وجہ سے ایسی (ہلاکت والی) گہرائی میں گرتا چلا جاتا ہے جس کا فاصلہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے جتنا فاصلہ آسمان اور زمین کے درمیان ہے پھر فرمایا کہ بلاشبہ انسان اپنی زبان سے اتنا پھسل جاتا ہے جتنا اپنے قدم سے (بھی) نہیں پھسلتا۔
اس حدیث میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ اول یہ کہ بعض مرتبہ لوگوں کو ہنسانے کیلئے انسان ایسا کلمہ کہہ گزرتا ہے جس کی وجہ سے ہلاکت کی گہرائی میں گرتا چلا جاتا ہے دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ انسان بعض مرتبہ اپنی زبان سے اتنا پھسل جاتا ہے جتنا کہ اپنے قدم سے بھی نہیں پھسلتا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر قدم پھسل جائے تو تھوڑی بہت چوٹ لگ جاتی ہے جو دو چار دن میں اچھی ہوجاتی ہے اور اگر زبان لغزش لکھا جائے تو اس سے دنیا وآخرت کی تباہی ہوجاتی ہے اگر کفر وشرک کا کلمہ کہہ دیا تو اس سے ہمیشہ کیلئے دوزخ میں گیا اور اگر کسی کو گالی دی تو سر پر جوتا پڑا۔ یہاں کی وہاں لگائی تو دو خاندانوں میں لڑائی کرادی ورنہ کسی کی غیبت کردی غرضیکہ زبان کے بہت گناہ ہیں اور ہر ایک پر مستقل وعید بیان کی گئی ہے، غیبت، چغلی، لعن طعن، بہتان، غصہ، فحش گوئی، گالم گلوچ، برے القاب، یہ زبان کے ایسے گناہ ہیں جو زبان زد عام ہیں اور ان کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتا جبکہ ان میں سے ہر ایک پر اللہ تعالیٰ نے سزا مقرر کی ہے۔
پھر بھی انسان کی زبان اتنی تیز چلتی ہے کہ ایک جملہ بولنے سے ہزاروں لوگوں کے دل چھلنی ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھیں ہمارے پیارے نبی ﷺ کو سب انبیاء سے زیادہ تکلیفیں دی گئیں لیکن آپ ﷺ نے ہر تکلیف پر صبر کیا، تحمل کا مظاہرہ کیا لیکن سب سے زیادہ تکلیف آپﷺ کو تب ہوئی جب آپ ﷺ کی پیاری زوجہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی ،آپ ﷺ فرماتے ہیں بخاری شریف کے الفاظ ہیں جن کا ترجمہ ہے مجھے عائشہؓ پر تہمت لگنے کے بعد اتنا دکھ ہوا اتنی تکلیف ہوئی اتنا صدمہ پہنچا کہ اس سے پہلے مجھے کبھی اتنا صدمہ نہیں پہنچا۔ یہ صدمہ آپ ﷺ کو صرف زبان کی آگ کی وجہ سے ملا، اور یہ زبان کی آگ کا لگایا ہوا صدمہ اتنا نڈھال کررہا تھا تمام امت مسلمہ اس وقت سکتے میں آگئی تھی اور ہر ایک صحابی پریشان تھا یہاں تک مدینہ میں پورا ماحول سوگوار نظر آرہا تھا اور یہ آگ ٹھنڈا ہونے کو نہ تھی تو اس آگ کو بجھانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا اور سورۃ نور کی کم وبیش سترہ 17آیات اس آگ کو بجھانے کیلئے نازل ہوئیں آپ جب بھی قران کی تلاوت کریں اور آپ کی نظر جب سورۃ نور کی ان آیات پر پہنچے تو آپ ان کا ترجمہ ضرور پڑھ لیا کریں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ زبان کی آگ نے ہمارے نبی ﷺ کو کتنی تکلیف پہنچائی ۔
قارئین کرام! آپ خود بھی مشاہدہ کرچکے ہونگے کہ ہمارے معاشرہ میں آج کل جتنے بھی فسادات ہورہے ہیں ان سب کے پیچھے آپ کو زبان کی آگ ہی نظر آئیگی۔ گھریلو جھگڑے ،میاں بیوی کا جھگڑا، ہرخاندانوں کی لڑائی پھر نسلوں تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اس سب میں اگر بنیادی وجہ ہوگی تو وہ زبان کی بداحتیاطی، زبان درازی، سب شتم ،چغلی، غیبت ہی ہوگی۔ آپﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو کتنی پیاری نصیحت فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے معاذ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتائوں جو پورے دین کی بادشاہ ہو یعنی پورے دین کا خلاصہ ہو اگر اس پر عمل کیا تو گویا پورے دین پر عمل کیا۔ حضرت معاذؓ نے عرض کیا ضرور یا رسول اللہ ﷺتو آپ ﷺ نے فرمایا اے معاذ میری طرف دیکھو ،آپﷺ نے اپنی زبان مبارک کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔معاذؓ اس زبان کو قابو میں رکھنا ،تو حضرت معاذؓ نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول کیا زبان کی وجہ سے بھی پکڑ ہوگی ۔آپﷺ نے فرمایا ،معاذ اس زبان کی وجہ سے تو زیادہ لوگ جہنم میں داخل کردیئے جائیں گے ۔کتنی تاکید کے ساتھ آپ ﷺ نے زبان کی حفاظت کیلئے فرمایا اور آج سب سے زیادہ اگر بداحتیاطی کی جاتی ہے تو صرف اس زبان کے متعلق آخر کیوں؟
اس طرح کی اور بھی روایات کثرت سے مروی ہیں جن میں زبان کی حفاظت کے بارے میں تلقین کی گئی ہے سب سے زیادہ زبان کو محتاط طریقہ سے استعمال کرنا ان لوگوں کی ذمے داری ہے جو کسی نہ کسی بڑے عہدے پر فائز ہیں جو عوام الناس کے نمائندے ہیں کیونکہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ان کے کارکنان اور مقلدین کے لئے دلیل وصحت کی حیثیت رکھتے ہیں جو ان کو اپنا قائد مانتے ہیں وہ اپنے قائدین ورہنما کی باتوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور اس کو اپنی زندگی کا مشن وموقف سمجھتے ہیں ۔اس لئے نمائندگان عوام الناس کو بولنے سے پہلے تولنا چاہئے، میرے وطن میں ایسے مقرر حضرات کی تعداد وافر مقدار میں ہے جو الفاظ سے کھیلنا جانتے ہیں جو الفاظ کے ذریعے اپنی سحر بیانی کے ذریعے لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں وہ خطیب حضرات اپنی شعلہ بیانی سے عوام الناس کو اپنا گرویدہ بناکر پھر ان کو جس جس مقصد کی طرف لے جاتے ہیں بیچارے عوام اس کے انجام سے ناآشنا ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے پوری دنیا میں آج اسٹیج پر ایسے لوگ قابض ہیں جو اپنی تقریر میں تعمیر وترقی واصلاح کی باتیں کم اور تخریب وتذلیل وشرارت کی باتیں زیادہ کرتے ہیں آج تو ایک عام رواج سا بن گیا ہے کہ جب تک مقرر صاحب اپنے مخالفین کے بارے میں صراحۃ یا کنایۃ کوئی سخت بات نہ کہے کوئی تبراء نہ کرے کوئی طعن نہ لگائے تب تک مقرر صاحب بھی اپنی تقریر سے مطمئن نہیں ہوتے اور سامعین بھی تب تک ’’داد‘‘ نہیں دیتے۔
اختلاف رائے کا حق سب کو ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی تو نہیں کہ آپ اپنے مخالف کو گندی گالیاں دیں؟لیکن ہم اپنے مخالفین سے کس طرح بات کرتے ہیں کبھی خود جائزہ نہیں لیا ہمارے تمام لیڈر حضرات اگر اپنی زبان کو نرم رکھتے، اپنے لہجے کو
بدل دیتے تو بے گناہ لوگوں کے لاشے نہ تڑپتے ۔ہر جگہ زبان کی لگی ہوئی آگ سلگ رہی ہے جس کی زد میں آکر لاکھوں گھر جل چکے ہیں اور لاکھوں جل رہے ہیں، سیاسی اختلافات کے مقاصد کچھ بھی ہوں لیکن اس اختلاف کو اس حد تک لے جانے والی زبان کی آگ ہے۔آج وطن عزیز میں فرقہ واریت بھی اسی چرب زبانی کا نتیجہ ہے۔ میری قارئین سے التماس ہے کہ خدارا !آپ خود بھی زبان کو قابو میں رکھیں اور اپنے اردگرد رہنے والے حضرات کو بھی اس کا پابند بنائیں اور اہل اقتدار سے بھی گزارش ہے کہ قانون تو بنتے رہتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا لہٰذا اس مرتبہ کوئی ایسا قانون بنائیں جس میں زبان کی لگائی ہوئی آگ پر سخت سزائیں مقرر کی جائے اور اس قانون پر عملدرآمد بھی کیا جائے۔کوئی کسی کی مقدس شخصیات پرتبراء نہ کرے کوئی کسی فرقے یا مذہب کے خلاف لوگوں کو نہ اکسائے اور عوام الناس کو بھی اپنی روش بدلنا ہوگی اور یہ ایسے جذبات وتقاریر کی مذمت کرنا ہوگی کیوں یہ وقت ہے کہ ایسی زبان کو بند کیا جائے جو نفرتوں عداوتوں اور دوریوں کو بڑھائے اگر خدانخواستہ ہم نے آج زبان کی آگ پر قابو نہ پایا تو ہوسکتا ہے ہمیں بھی ’’حلب‘‘ ’’موصل‘‘ ’’ادلب‘‘ بغداد‘‘ جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے اور پھر یہ آگ ہمارے کنٹرول سے بھی نکل جائے اور اس کو بجھانے والا کوئی نہ ہو۔
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
ہے شوق سفر ایسا اک عرصے سے یارو
منزل بھی نہ پائی رستہ بھی نہیں بدلا